جمعرات، 18 ستمبر، 2014

Husn Wo Jamal Ki ZiayeN

حسن و جمال کی ضیائیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محبوب اور وہ بھی کیسا ؟
بے مثال محبوب
----------------------------
حسن اور وہ بھی کیسا ؟
بے مثال حسن
---------------------------
محبوب کے رخسار کے حسن و جمال کو بیان کرنا کو ئی امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ عنہ سے سیکھے......... ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فیض کے سمندر امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کے سینے کو سیراب کر رہے ہیں ........ اور امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ عنہ کے دل و دماغ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ خوشنما پھول کھل رہے ہیں....... جن کی خوشبو جب قلم تک پہنچتی ہے..... تو صفحہ قرطاس پر الفاظ اس طرح برکتیں لٹاتے ہیں......... کہ پڑھنے اور سننے والے کے دل و دماغ کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عظمی عطا ہوتی جاتی ہے.

بے مثال محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثال حسن و جمال کی کتنی بے مثال برکتیں اعلی حضرت کے حصے میں آئی اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ بس اس کی اک ادنی سی جھلک کا اندازاہ آپ کی اس نعت سے لگا سکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نار دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض
ظلمت حشر کو دن کر دے نہار عارض

مشکل الفاظ کے معنی :
٭ نار دوزخ ( جہنم کی آگ) ، ٭ چمن (باغ) ، ٭ بہار عارض ( رخسار کی چمک ) ، ٭ ظلمت حشر ( قیامت کا اندھیرا ) ، ٭ نہار ( صبح کا اجالا)

تشریح :
اس شعر میں اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں ، رحمتوں ، عنایتوں اور جود و کرم کی عظمتوں کی بلندیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا آپ کی شان عظمت نشان کی رفعت آپ کے رب کے سوا کسی کو معلوم نہیں بس اتنا جان لو کہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخسار کے حسن و جمال کی چمک دمک اور رونق و شان کی برکتوں سے ہم گنہگاروں پر جہنم کی آگ بھی گلزار بن جاۓ گی اور قیامت کا اندھیرا اجالے میں بدل جاۓ گا۔ انشاءاللہ عزوجل
اللہ ہمیں بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں سے دنیا و آخرت میں حصہ عطا فرماۓ ۔ آمین


میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب قرآن کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ صاحب قرآں ( اللہ تعالی جس نے قراں پاک نازل فرمایا) ،٭ مصحف (کلام الہی ، یہاں انبیاء کرام کے رخ مبارک مراد ہیں) ، ٭ بہار عارض ( رخسار کی چمک)

تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت ، عظیم المرتبت ،الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا ہوں اور میری پسند کس کھاتے میں ہے۔ آپ کے حسن و جمال کی شان یہ ہے کہ خود خالق حسن و جمال (اللہ عزوجل) کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام و رسل عظام میں سے سب سے ذیادہ آپ ہی کا رخ روشن پسند آیا تبھی تو آپ کے رب عزوجل نے قرآن پاک میں " والضحی " فرما کر آپ کے چہرہ اقدس کی قسم یاد فرمائی ہے ۔ سبحان اللہ

جیسے قرآن ہے ورد اس گل محبوبی کا
یوں ہی قرآن کا وظیفہ ہے و‍قار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ ورد (وظیفہ) ، ٭ گل محبوبی (محبوبیت کا پھول ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ، ٭ وقار عارض ( رخسار کی عزت)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت ، عاشق شمع رسالت ،الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی شان و عظمت کی برکتیں سمیٹتے ہوے عرض گزار ہیں کہ جس طرح شوق و محبت اور زوق و ادب سے حضور سید عالم ، جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن پاک کلام الہی کی تلاوت فرماتے ایسے ہی قرآن پاک بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جا بجا عظمت و توقیر کرنے کا حکم دیتا ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کا وظیفہ پڑھتے ہیں اور قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت کے ترانے پڑھتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن پاک کی تلاوت فرماتے ہیں قران پاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پرنور کی تلاوت فرماتا ہے ۔ وہ کلام الہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ خدا ہیں ، وہ نور صفات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ ذات ہیں۔

گرچہ قرآن ہے نہ قرآن کے برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مدح نگار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ گرچہ (تاہم) ، ٭ مدح (تعریف) ، ٭ نگار ( نقش و نگار ) ، ٭ عار ض (رخسار) ، ٭ مدح نگار عارض (رخسار کی تعریف کرنے والا)
تشریح:
اس شعر میں سیدی و مرشدی احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ حضور سید عالم ، جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی رفعت کی عظمتوں کو دیکھ کر فرط حیرت سے قربان ہو رہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن پاک کی طرح کلام الہی اور قدیم ہیں اور نہ آپ قرآن پاک کے برابر کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق اور حادث ہیں جبکہ قرآن پاک کلام الہی اور قدیم ہے برابری تو ہو ہی نہیں سکتی پھر کچھ تو ایسی خاص بات ہے نا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق ہو کر بھی کلام الہی قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک کی تعریف کا وظیفہ پڑھتا ہے ۔

طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلو‌‍ ہ گرم
آپ عارض ہو مگر آئنہ دار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ جلوہ گرم ( تجلی ، عظمت کی بلندی ، یہاں معراج کی تیز رفتاری مراد ہے) ، ٭ آپ عارض ( خود عرض کرے) ، ٭ آئنہ دار ( شیشہ دکھانے کی خدمت پر مامور نوکر)
تشریح:

سیدی اعلی حصرت رضی اللہ عنہ حضور سید عالم کی شان و عظمت کی برکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوے عرض کرتے ہیں کہ بھلا طور پہاڑ جہاں حضرت موسی علیہ سلام نے اللہ عزوجل سے کلام کا شرف حاصل کیا اور طور پہاڑ بھی ان برکتوں سے بابرکت ہو گیا مگر طور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کو کہاں پہنچ سکتا ہے یہ طور تو یہاں زمین پر ہے وہ عرش جو ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے وہ بھی معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور عظیم شانوں کو دیکھتے ہوے وجد میں آگیا اور اپنے آپ کو حضور سید عالم کی خدمت میں پیش کردیا جیسے کسی باردشاہ کی خدمت میں چہرہ دیکھنے کے لیے آئنہ دکھانے والا خادم مامور ہوتا ہے ۔
اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب معراج کی رات عرش کے پاس سے گزرے تو عرش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن کریم پکڑ کر عرض کی ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام میرے دل کا قرار ہے میرے اوپر بھی نگاہ کرم فرماتے جايئے۔ سبحان اللہ

طرفہ عالم وہ قرآن ادھر دیکھیں ادھر
مصحف پاک ہو حیران بہار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ طرفہ عالم (عجیب و غیرب عالم) ، ٭ مصحف پاک (قرآن پاک ، کلام الہی)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کتنی عجیب بات ہے کہ ‍ قرآن پاک کی زیارت کرنی ہو تو چاہے قران پاک کو دیکھ لو یا رخ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل کر لو دونوں میں تمہیں قرآن پاک کا دیدار ہو جاۓ گا۔ حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ کا خلق تو اول سے لے کر آخر تک قرآن ہی ہے ۔ اور دوسری طرف قرآن کو پوچھیں تو وہ بھی رخ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہاریں دیکھتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۃ بقرہ میں ہے کہ "اے محبوب ! ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھ رہے ہیں ۔
قرآن کی ہو سورۃ میں حضور کی صورت نظر آتی ہے اور حضور کے چہرہ انور میں پورا قران نظر آتا ہے۔

ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئنہ ذات
کیوں نہ مصحف سے ذیادہ ہو وقار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ ترجمہ ہے یہ صفت کا ( لفظی قران پاک (جو ہمارے ہاتھوں میں ہے) کی بات ہو رہی ہے جو کہ صفت کلام الہی کا ترجمہ اور اس پر دلالت کرنے والا ہے) ، ٭ آئنہ ذات (ذاتی جلوہ) ، ٭ وقار (عزت) ، مصحف (لفظی قرآن پاک جو ہمارے گھروں میں موجود ہے جسے سے ہم کلام الہی کی تلاوت کرتے ہیں)
تشریح:
قرآن پاک کے نظر آنے والے الفاظ تو اس کلام نفسی( جو اللہ کا کلام ہے ) کا ترجمہ ہیں اور اس پر دلالت کرنے والے ہیں۔ ورنہ یہ اوراق اور سیاہی سے لکھے ہوے حروف تو مخلوق و حادث ہیں یہ صفت خدا نہیں ہے بلکہ اس صفت کلام الہی کا ترجمہ ہیں اور دلالت کرنے والے ہیں اور جو صفت کلام الہی ہے وہ اوراق اور لفظ کا محتاج نہیں ہے یہ اوراق اور الفاظ مٹ بھی جائیں تو کلام الہی یعنی کلام نفسی اپنی اصلی حالت میں موجود رہے گا۔ اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئنہ ذات کبریا ہیں ۔ تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقار، عزت اور مقام و مرتبہ اس حادث الفاظ اور اوراق والے مصحف سے ذیادہ ہے۔
خیال رہے کہ حضور انور ساری خلقت سے افضل ہیں لہذا آپ نبیوں سے،رسولوں سے،عرش اعظم سے،کعبہ معظمہ سے،کتاب اللہ لفظی قرآن مجید سب سے افضل ہیں کہ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔چنانچہ کعبہ دیکھنے والا حاجی ہے،کوئی نمازی،کوئی غازی،کوئی قاری یا قاضی ہے مگر حضور کو ایمان کے ساتھ دیکھنے والا صحابی ہے جو تمام سے افضل ہے۔اسی لیے جب حضور انور نے مکہ معظمہ کو چھوڑا وہاں سے ہجرت کی تو مسلمانوں کو بلاعذر وہاں رہنا حرام ہوگیا حالانکہ کعبہ شریف وغیرہ وہاں موجود تھے، جب فتح مکہ فرمائی تب تاقیامت وہاں رہنا جائز بلکہ ثواب ہوگیا،جب حضور مکی تھے تو آیات قرآنیہ مکی ہوئیں،جب حضور مدنی ہوگئے تو آیاتِ قرآنیہ مدنی ہوگئیں۔رب نے مکہ کی قسم فرمائی اس لیے نہیں کہ وہاں کعبہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں حضور ہیں
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
---------------------------------

جلوہ فرمائیں رخ دل کی سیاہی مٹ جاۓ
صبح ہو جاۓ الہی شب تار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ رخ دل (دل کا چہرہ) ، ٭ شب تار (تاریک رات ، قبر کی رات)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت ،عظیم المرتبت ، امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں اور شان و عظمت اور اللہ کی بارگاہ میں آپ کی بلند عزت پر نظر رکتھے ہوے اللہ کی بارگاہ میں دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ عزجل ، اے میرے مولی ! اگر تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک جلوہ مجھے نصیب ہو جاۓ تو میرے دل پر چھائی ہوئی گناہوں کی میل دھل جاۓ اور دل نور نور ہو جاۓ گا اور معرفت الہی کا خزینہ بن جاۓ گا اور میری قبر کی سیاہ ، تاریک رات صبح فروزاں ہو جاۓ گی۔

نام حق پر کرے محبوب دل و جان قربان
حق کرے عرش سے تا فرش نثار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ نثار (قربان)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اللہ کے لیے محبت اور اللہ عزوجل کی اپنے محبوب پر عنایتوں کی بارش کی انتہا کو اپنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے نام پر دل و جان قربان کر تے ہیں اور اللہ عزوجل نے عرش سے لے کر فرش تک اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار پر قربان کردیا ہے ۔

مشکبو زلف سے رخ چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلب زلف و تتار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ مشکبو ( مشک کی خوشبو ) ، ٭ رخ چہرہ (چہرہ کی طرف) ، ٭ شعاع (چمک) ، ٭ حلب زلف ( سیاہ زلف)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشک کی خوشبو جو بہت اعلی خوشبو ہوتی ہے وہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک خوشبو دار زلف کا صدقہ اور عطا ہے اور بالوں مبارک میں چمک حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نوری نوری چہرے کے سبب ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلف اور نوری رخسار آپ کے معجزات میں سے ہیں۔

حق نے بخشا ہے کرم نذر گدایاں ہو قبول
پیارے اک دل ہے وہ کرتے نثار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ کرم (سخاوت و بخشش )، ٭نذر گدایاں (گداگر کا تحفہ)
تشریح:
اس شعر میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں انتہائی عاجزی و انکساری سے اپنے دل کی خواہش عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کو تو اللہ تعالی نے کرم کرنے والا ، جو د و کرم اور سخاوت و بخشش کا سمندر بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بخشش کبھی ختم نہیں ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو قاسم نعمت ہیں ، بے کسوں اور بے بسوں کا سہارا ہیں ، ہمارا ملجا و ماوی ہیں ۔ مجھ بے کس و بے بس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نذر کرنے کو سواۓ اپنے حقیر دل کے اورکچھ نہیں جسے میں آپ کے رخسار مبارک پر قربان کرتا ہوں اور میرا یہ تحفہ ب بہت حقیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان نہیں ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کریم ہیں اور حق نے آپ کر کرم بخشا ہے ، سخاوت کرنے والا بنایا ہے آپ اپنی شان کریمی کا صدقہ اس حقیر سی نذر کو قبول فرما لیں۔

آہ بے مائیگی دل کے رضاۓ محتاج
لے کر اک جان چلا بہر نثار عارض
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ آہ (ہاۓ) ، ٭ بے مائیگی ( غریبی) ، بہر (واسطے)
تشریح:
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ اس شعر میں اپنی لاچارگی ، بے بسی ، بے کسی اور غریبی کا تذکرہ کرتے ہے عرض کرتے ہیں ۔ہاۓ غربت نے یہ دن دکھاۓ کہ عبد مصطفی احمد رضا بےچارہ اپنا معمولی دل لے کر چلا ہے اور کہاں لے کر چلا ہے ؟ محبوب خدا سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخسار وں پہ قربان کرنے کے لیے۔

طالب دعا
ڈاکٹر صفدر علی ‍ قادری



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں