’ آف شور کمپنی بنائی، اس میں کوئی غیرقانونی چیز نہیں ہے‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انھوں نے سنہ 1983 میں ایک آف شور کمپنی بنائی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا جائز حق تھا۔

جمعے کو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں عمران کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ آف شور کمپنی لندن میں فلیٹ خریدنے کے سلسلے میں اکاؤنٹنٹ کے کہنے پر بنائی تھی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا تھا کہ عمران خان نے کرکٹ کھیل کر کمائے ہوئے پیسوں سے ’قانونی آف شور کمپنی‘ بنائی تھی۔

عمران خان کے بیان کے ردعمل میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے عمران خان کو آف شور کمپنیوں کا ’بانی‘ قرار دیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر عمران خان کے اسی بیان سے متعلق موضوعات ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا تھا کہ عمران خان نے کرکٹ کھیل کر کمائے ہوئے پیسوں سے ’قانونی‘ لیگل آف شور کمپنی‘ بنائی تھی

،تصویر کا ذریعہPTI

،تصویر کا کیپشنتحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا تھا کہ عمران خان نے کرکٹ کھیل کر کمائے ہوئے پیسوں سے ’قانونی‘ لیگل آف شور کمپنی‘ بنائی تھی

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ایک صحافی کے سوال کہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان نعیم الحق نے کہا ہے کہ سنہ 1983 میں عمران خان نے آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں فلیٹ خریدا تھا۔

اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی غیرقانونی چیز نہیں ہے۔ وہ سارا پیسہ پاکستان واپس لے کر آیا۔ اور میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ میرا فلیٹ نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں برطانیہ کا شہری نہیں ہوں اور آف شور کمپنی بنانا میرا جائز حق تھا تاکہ مزید ٹیکس سے بچا جا سکے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2012 میں مجھ سے بنی گالہ میں گھر کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے پریس کانفرنس میں اس فلیٹ کی فروخت کی رسید دکھائی اور اس پیسے سے میں نے پاکستان میں اپنا گھر بنایا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں ان پاکستانیوں میں سے ہوں جو 19 ارب ڈالر بیرون ملک پیسہ کما پاکستان بھیجتے ہیں۔‘

اس موقع پر انھوں نے ایک بار بھر شریف خاندان کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے ضوابط کار کے تحت عدالتی کمیشن تشکیل دینے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

اس حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنا ضوابط کار دیے ہیں جو اپوزیشن کو منظور نہیں ہیں۔ اپوزیشن کے اپنے ضوابط کار ہیں، جب تک حکومت اور اپوزیشن کو ملا کر ضوابط کار نہیں بنیں گے تو سپریم کورٹ کبھی بھی یک طرفہ ضوابط کار قبول نہیں کرے گی۔

’جب تک ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن متفق ہیں ہوں گے انھیں سپریم کورٹ قبول نہیں کرے گی۔‘

خیال رہے کہ اپوزیشن کی طرف سے مطالبے کے بعد حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار تو ہو گئی تھی لیکن اس معاملے پر تحقیقات کے لیے حکومت نے جو ضوابط کار تجویز کیے تھے ان کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔

وزیرِ اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اپنے خاندان پر لگے الزامات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کروانے کا اعلان کیا تھا

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنوزیرِ اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اپنے خاندان پر لگے الزامات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کروانے کا اعلان کیا تھا

گذشتہ ماہ پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بچوں کی کاروباری کپمنیوں اور جائیداد کا انکشاف ہونے کے بعد سے حکومتِ پاکستان پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سارے معاملے کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں۔

پامانا لیکس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اپنے خاندان پر لگے الزامات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کروانے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھا کہ وزیرِ اعظم کے خاندان کے بیرونِ ملک میں موجود کاروبار کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے۔